ثابت یہ میں کروں گا کہ ہوں یا نہیں ہوں میں
وہم و یقیں کا کوئی دوراہا نہیں ہوں میں
سستا رہا ہوں راہ گزر سے ذرا پرے
کیا مجھ کو تک رہے ہو تماشہ نہیں ہوں میں
پہلا قدم کہیں مرے انکار کا نہ ہو
ہونا تھا جس جگہ مجھے اس جا نہیں ہوں میں
بیساکھیوں پہ چلتے بنو منہ نہ تم لگو
کہتا ہوں پھر کہ آدمی اچھا نہیں ہوں میں
ہوں اپنے دائیں بائیں بھی میں ہی یہ سوچ لو
تم ہو تو میری تاک میں تنہا نہیں ہوں میں
سمجھے نہ کوئی سرسری سا تذکرہ مجھے
بھر پور ماجرا ہوں حوالہ نہیں ہوں میں
حیرت کدہ ہوں وہ کہ جسے لا مکاں کہیں
تم کیا سمجھ رہے ہو مجھے کیا نہیں ہوں میں
یہ مجھ کو سوچنا ہے کہ اگلا قدم ہو کیا
یوں بھی کسی کی بات میں آیا نہیں ہوں میں
کہتا ہے تلخؔ گھر سے نکلنا کروں گا بند
کوئی بچا ہے جس سے کہ الجھا نہیں ہوں میں

غزل
ثابت یہ میں کروں گا کہ ہوں یا نہیں ہوں میں
منموہن تلخ