EN हिंदी
روٹھے ہیں ہم سے دوست ہمارے کہاں کہاں | شیح شیری
ruThe hain humse dost hamare kahan kahan

غزل

روٹھے ہیں ہم سے دوست ہمارے کہاں کہاں

عبدالطیف شوق

;

روٹھے ہیں ہم سے دوست ہمارے کہاں کہاں
ٹوٹے ہیں زندگی کے سہارے کہاں کہاں

دنیا کی بازگشت میں اپنی ہی ہے صدا
ایسے میں کوئی تجھ کو پکارے کہاں کہاں

کعبے میں تھا سکوں نہ کلیسا میں چین تھا
تجھ سے بچھڑ کے دن یہ گزارے کہاں کہاں

تو تھا رگ گلو سے زیادہ قریب تر
ڈھونڈھ آئے تجھ کو دید کے مارے کہاں کہاں

تارے کہیں ہیں پھول کہیں ہیں گہر کہیں
بکھرے ہوئے ہیں اشک ہمارے کہاں کہاں

شمع بھی مضطرب ہے پتنگا بھی مضطرب
پہنچے ہیں سوز غم کے شرارے کہاں کہاں

فرصت ملے کبھی تو شب غم سے پونچھنا
ٹوٹے ہیں چشم شوقؔ سے تارے کہاں کہاں