روٹھا تھا تجھ سے یعنی خود اپنی خوشی سے میں
پھر اس کے بعد جان نہ روٹھا کسی سے میں
بانہوں سے میری وہ ابھی رخصت نہیں ہوا
پر گم ہوں انتظار میں اس کے ابھی سے میں
دم بھر تری ہوس سے نہیں ہے مجھے قرار
ہلکان ہو گیا ہوں تری دل کشی سے میں
اس طور سے ہوا تھا جدا اپنی جان سے
جیسے بھلا سکوں گا اسے آج ہی سے میں
اے طراحدار عشوہ طراز دیار ناز
رخصت ہوا ہوں تیرے لیے دل گلی سے میں
تو ہی حریم جلوہ ہے ہنگام رنگ ہے
جاناں بہت اداس ہوں اپنی کمی سے میں
کچھ تو حساب چاہئے آئینے سے تجھے
لوں گا ترا حساب مری جاں تجھی سے میں
غزل
روٹھا تھا تجھ سے یعنی خود اپنی خوشی سے میں
جون ایلیا