EN हिंदी
روح میں گھور اندھیرے کو اترنے نہ دیا | شیح شیری
ruh mein ghor andhere ko utarne na diya

غزل

روح میں گھور اندھیرے کو اترنے نہ دیا

رام ریاض

;

روح میں گھور اندھیرے کو اترنے نہ دیا
ہم نے انسان میں انسان کو مرنے نہ دیا

تیرے بعد ایسی بھی تنہائی کی منزل آئی
کہ مرا ساتھ کسی راہ گزر نے نہ دیا

کون تھا کس نے یہاں دھوپ کے بادل برسائے
اور ترے حسن کی چاندی کو نکھرنے نہ دیا

پیاس کی آگ لگی بھوک کی آندھی اٹھی
ہم نے پھر جسم کا شیرازہ بکھرنے نہ دیا

زندگی کشمکش وقت میں گزری اپنی
دن نے جینے نہ دیا رات نے مرنے نہ دیا

اشک برسائے کبھی خون بہایا ہم نے
غم کا دریا کسی موسم میں اترنے نہ دیا