روح کو پہلے خاکسار کیا
پھر بدن میں نے تار تار کیا
درد کو شعلۂ خمار کیا
شیشۂ غم کو شرمسار کیا
انگلیاں اٹھتے اٹھتے گرنے لگیں
ہم نے جب آسمان پار کیا
میں نہتا تھا کیسے بچ پاتا
اور پیچھے سے اس نے وار کیا
رائیگاں ہو رہی تھی تنہائی
تیری یادوں کا کاروبار کیا
جب نظر میں گرہ پڑی دیکھی
شب نے خوابوں کو آب دار کیا
دل کے سجدے لہو لہان ہوئے
کن دعاؤں نے بیڑا پار کیا
لوگ کتنے بچھڑ گئے ساجدؔ
خود کو ہم نے بھی بے حصار کیا
غزل
روح کو پہلے خاکسار کیا
ساجد حمید