روح کی بات سنے جسم کے تیور دیکھے
التجا ہے کہ وہ اس آگ میں جل کر دیکھے
تم وہ دریا کہ چڑھے بھی تو گھڑی بھر کے لیے
میں وہ قطرہ ہوں جو گر کے بھی سمندر دیکھے
چبھتا ماحول گھٹی روح گریزاں لمحے
دل کی حسرت ہے کبھی ان سے نکل کر دیکھے
ایک نقشے پہ زمانہ رہا ہنگام وصال
شیشۂ جسم میں سو طرح کے منظر دیکھے
کیسے کر لے وہ یقیں تجھ پہ فریب غم ذات
تیری راہوں میں جو تشکیک کے پتھر دیکھے
بات ہو صرف حقیقت کی تو سہہ لے لیکن
اپنے خوابوں کو بکھرتے کوئی کیوں کر دیکھے
ہم سے مت پوچھئے کیا نفس پہ گزری امیدؔ
ایک اک سانس سے لڑتے ہوئے لشکر دیکھے
غزل
روح کی بات سنے جسم کے تیور دیکھے
علی عباس امید