روبرو بت کے دعا کی بھول ہو جائے تو پھر
اور پھر وہ ہی دعا مقبول ہو جائے تو پھر
میں بڑھاؤں ہاتھ جس کانٹے کی جانب شوق سے
ہاتھ میں آ کر وہ کانٹا پھول ہو جائے تو پھر
بادبانوں پر ہوا ہو مہرباں اور دفعتاً
ٹکڑے ٹکڑے ناؤ کا مستول ہو جائے تو پھر
نفرتیں بے زاریاں بغض و تعصب دشمنی
زندگی کا بس یہی معمول ہو جائے تو پھر
قاتلوں کو کر دیا جائے بری الزام سے
واجب تعزیر خود مقتول ہو جائے تو پھر
لمحہ لمحہ منزلیں ہوتی چلی جائیں بعید
اور قسمت راستے کی دھول ہو جائے تو پھر
حال دل اپنا بیاں کرنے کی خواہش ہے مگر
کچھ توجہ آپ کی مبذول ہو جائے تو پھر
غزل
روبرو بت کے دعا کی بھول ہو جائے تو پھر
یعقوب تصور