EN हिंदी
رتبہ کچھ عاشقی میں نہ کم ہے فقیر کا | شیح شیری
rutba kuchh aashiqi mein na kam hai faqir ka

غزل

رتبہ کچھ عاشقی میں نہ کم ہے فقیر کا

نظیر اکبرآبادی

;

رتبہ کچھ عاشقی میں نہ کم ہے فقیر کا
ہیں جس کے سب صنم وہ صنم ہے فقیر کا

تکیہ اسے نہ بھول کے کہنا کبھی میاں
تکیہ نہیں یہ باغ ارم ہے فقیر کا

رہتا ہے پھر وہ پھولتا مثل سدا سہاگ
جس گل بدن پہ لطف و کرم ہے فقیر کا

گھٹ جائیں جس کو دیکھ کے لاکھوں تری گھٹا
اے ابر تر وہ دیدۂ نم ہے فقیر کا

لکھتا ہے بن تراشے ہی حرفوں کے جوڑ توڑ
اے خوش نویس یہ وہ قلم ہے فقیر کا

ظل ہما بھی واں سے سعادت کرے حصول
جس سر زمیں پہ نقش قدم ہے فقیر کا

ہیں زیر سایہ اس کے ہزاروں گدا و شاہ
بیرق اسے نہ کہہ یہ علم ہے فقیر کا

کیونکر لکھے نہ فقر کے شان و شکوہ کو
یارو نظیرؔ پر بھی کرم ہے فقیر کا