EN हिंदी
رسوا بقدر ذوق تمنا نہیں ہوں میں | شیح شیری
ruswa ba-qadr-e-zauq-e-tamanna nahin hun main

غزل

رسوا بقدر ذوق تمنا نہیں ہوں میں

شوکت تھانوی

;

رسوا بقدر ذوق تمنا نہیں ہوں میں
اپنے عروج پر ابھی پہونچا نہیں ہوں میں

نیرنگ قید ہستیٔ فانی نہ پوچھئے
مرتا ہوں روز اور کبھی مرتا نہیں ہوں میں

تاثیر ہی بیاں میں نہ ہو جب تو کیا کروں
کیا اپنا حال ان کو سناتا نہیں ہوں میں

جو مجھ کو دیکھتے ہیں تجھے دیکھتے ہیں وہ
شاید تری نگاہ کا پردا نہیں ہوں میں

کافی ہے مجھ کو اک نظر التفات دل
سرگرم آرزوے تماشا نہیں ہوں میں

اتنا خیال دوست نے بے خود بنا دیا
پہروں اب اپنے ہوش میں آتا نہیں ہوں میں

کیوں ہنس رہے ہیں میری ہنسی پر سب اے جنوں
کیا قابل مسرت دنیا نہیں ہوں میں

بیکار جانتا ہوں فسون امید کو
ناواقف فریب) تمنا نہیں ہوں میں

مایوس ہو چلے ہیں ملامت گران عشق
وہ وقت ہے کہ بات سمجھتا نہیں ہوں میں

جلوہ بقدر ذوق ہو اے برق حسن دوست
موسیٰ کا ہم خیال ہوں موسیٰ نہیں ہوں میں

شوکتؔ کشش ضرور ہے اس جلوہ گاہ میں
مایوس جذب ذوق تماشا نہیں ہوں میں