EN हिंदी
رموز غم سے بیگانے خوشی کا راز کیا جانیں | شیح شیری
rumuz-e-gham se begane KHushi ka raaz kya jaanen

غزل

رموز غم سے بیگانے خوشی کا راز کیا جانیں

رگھوناتھ سہائے

;

رموز غم سے بیگانے خوشی کا راز کیا جانیں
قضا سے ڈرنے والے زندگی کا راز کیا جانیں

کھلا جن پر نہ راز‌ گریۂ شبنم گلستاں میں
وہ ناداں غنچہ و گل کی ہنسی کا راز کیا جانیں

ہنسی آتی ہے ہم کو حضرت واعظ کی باتوں پر
جو خود میکش نہیں وہ مے کشی کا راز کیا جانیں

جو ہو کے رہ گئے غم روز روشن کے اجالوں میں
شب غم کی بھیانک تیرگی کا راز کیا جانیں

بتائیں گے بھلا کیا خضر ہم کو راہ منزل کی
وہ خود گم کردہ رہ ہیں رہبری کا راز کیا جانیں

بتان فتنہ جو سے کیا توقع آشنائی کی
بھلا یہ دشمن جاں دوستی کا راز کیا جانیں

کوئی عارف ہی اے امیدؔ اسے سمجھے اگر سمجھے
یہ فرزانے مری دیوانگی کا راز کیا جانیں