رکنے کا اب نام نہ لے ہے راہی چلتا جائے ہے
بوڑھا برگد اپنے سائے میں خود ہی سستائے ہے
بھینی بھینی مہوا کی بو دور گاؤں سے آئے ہے
بھولی بسری کوئی کہانی نس نس آگ لگائے ہے
الجھی سانسیں سرگوشی اور چوڑی کی مدھم آواز
پاس کا کمرہ روز رات کی نیند اڑا لے جائے ہے
کم کیا ہوتی لجا کی یہ دوری اب تو اور بڑھی
دایاں گال چھپا کر اب وہ اور ادھک شرمائے ہے
جب سے سالا شہری بابو اپنے گاؤں میں آیا ہے
گوری کئی کئی بار کنویں پر پانی بھرنے جائے ہے
پورب پچھم اتر دکھن اپنی مٹی کے قیدی
یوں چوراہے کی تختی ہوں جو رستہ دکھلائے ہے
ہاتھ سے مچھلی پھسلے بیتا ایک زمانہ پر اب بھی
اپنی ہتھیلی سونگھے ہے جب ندی کنارے آئے ہے
غزل
رکنے کا اب نام نہ لے ہے راہی چلتا جائے ہے
شمیم انور