رخ سے فطرت کے حجابات اٹھا دیتا ہے
آئنہ ٹوٹ کے پتھر کو صدا دیتا ہے
عظمت اہل وفا اور بڑھا دیتا ہے
غم مسلسل ہو تو پھر غم بھی مزا دیتا ہے
دل دھڑکتا ہے تو پہروں نہیں سونے دیتا
نیند آتی ہے تو احساس جگا دیتا ہے
تم نے شاید کبھی اس بات کو سوچا ہوگا
وقت ہاتھوں کی لکیریں بھی مٹا دیتا ہے
جو مرے قتل کے درپئے تھا نہ جانے کب سے
آج وہ بھی مجھے جینے کی دعا دیتا ہے
اپنے کردار پہ موجوں کو بھی شرم آتی ہے
جب کوئی ڈوب کے ساحل کا پتا دیتا ہے
غم کی توفیق بھی سب کو نہیں ملتی گوہرؔ
یہ وہ نعمت ہے جو مشکل سے خدا دیتا ہے

غزل
رخ سے فطرت کے حجابات اٹھا دیتا ہے
گوہر عثمانی