EN हिंदी
رخ پہ گیسو جو بکھر جائیں گے | شیح شیری
ruKH pe gesu jo bikhar jaenge

غزل

رخ پہ گیسو جو بکھر جائیں گے

بسملؔ  عظیم آبادی

;

رخ پہ گیسو جو بکھر جائیں گے
ہم اندھیرے میں کدھر جائیں گے

اپنے شانے پہ نہ زلفیں چھوڑو
دل کے شیرازے بکھر جائیں گے

یار آیا نہ اگر وعدے پر
ہم تو بے موت کے مر جائیں گے

اپنے ہاتھوں سے پلا دے ساقی
رند اک گھونٹ میں تر جائیں گے

قافلے وقت کے رفتہ رفتہ
کسی منزل پہ ٹھہر جائیں گے

مسکرانے کی ضرورت کیا ہے
مرنے والے یوں ہی مر جائیں گے

ہو نہ مایوس خدا سے بسملؔ
یہ برے دن بھی گزر جائیں گے