رخ پہ گیسو جو بکھر جائیں گے
ہم اندھیرے میں کدھر جائیں گے
اپنے شانے پہ نہ زلفیں چھوڑو
دل کے شیرازے بکھر جائیں گے
یار آیا نہ اگر وعدے پر
ہم تو بے موت کے مر جائیں گے
اپنے ہاتھوں سے پلا دے ساقی
رند اک گھونٹ میں تر جائیں گے
قافلے وقت کے رفتہ رفتہ
کسی منزل پہ ٹھہر جائیں گے
مسکرانے کی ضرورت کیا ہے
مرنے والے یوں ہی مر جائیں گے
ہو نہ مایوس خدا سے بسملؔ
یہ برے دن بھی گزر جائیں گے
غزل
رخ پہ گیسو جو بکھر جائیں گے
بسملؔ عظیم آبادی