EN हिंदी
رخ پر ہے ملال آج کیسا | شیح شیری
ruKH par hai malal aaj kaisa

غزل

رخ پر ہے ملال آج کیسا

سخی لکھنوی

;

رخ پر ہے ملال آج کیسا
دل بر ہے ملال آج کیسا

اس خال سے کیا ملی ہے ذلت
اختر ہے ملال آج کیسا

بے یار نہیں ہوا ترا دور
ساغر ہے ملال آج کیسا

کیا آئی ہے یاد تیغ قاتل
اے سر ہے ملال آج کیسا

ہے راحت وصل کے جو آمد
مضطر ہے ملال آج کیسا

اندر میری آہ سن کے بولے
باہر ہے ملال آج کیسا

کیا آئی ہے کچھ خبر سخیؔ کی
گھر گھر ہے ملال آج کیسا