رخ ہی بدل دیا ہے غم روزگار کا
یہ حوصلہ ہے کس کے دل بے قرار کا
اے باغباں نہ پھول کو چٹکی سے یوں مسل
یاد آئے گا بہت ہی زمانہ بہار کا
اے میرے عشق تو ہی بتا کیا جواب دوں
وہ حال پوچھتے ہیں دل بے قرار کا
ہم نے تمہارے عشق میں وہ داغ کھائے ہیں
سینے کا داغ داغ ہے دامن بہار کا
تیرا جمال حسن کہ میرا جنون عشق
افسانے کو نہ بخش دے عنوان دار کا
در پر نگاہ ہاتھ گریباں پہ دم بخود
میں اک مجسمہ ہوں ترے انتظار کا
مثل کلیم حسن سے چشمک نہیں پسند
ہم جانتے ہیں جیت میں پہلو ہے ہار کا
کب اس کے نقش پا پہ نہ میری جبیں جھکی
جوہرؔ رہا ہے مجھ پہ کرم کردگار کا

غزل
رخ ہی بدل دیا ہے غم روزگار کا
جوہر زاہری