رخ زیبا ادھر نہیں کرتا
چاہتا ہے مگر نہیں کرتا
سوچتا ہے مگر سمجھتا نہیں
دیکھتا ہے نظر نہیں کرتا
بند ہے اس کا در اگر مجھ پر
کیوں مجھے در بدر نہیں کرتا
حرف انکار اور اتنا طویل
بات کو مختصر نہیں کرتا
نہ کرے شہر میں وہ ہے تو سہی
مہربانی اگر نہیں کرتا
حسن اس کا اسی مقام پہ ہے
یہ مسافر سفر نہیں کرتا
جا کے سمجھائیں کیا اسے کہ ظفرؔ
تو بھی تو درگزر نہیں کرتا
غزل
رخ زیبا ادھر نہیں کرتا
ظفر اقبال