رکے ہوئے ہیں جو دریا انہیں روانی دے
تو اپنے ہونے کی مجھ کو کوئی نشانی دے
پلٹ کے دیکھ لوں تجھ کو تو سنگ ہو جاؤں
مرے یقین کو ایسی کوئی کہانی دے
میں شاہ کار ہوں تیرا تو اے خدا اک دن
یہ مژدہ آ کے مرے رو بہ رو زبانی دے
وہ میرے خوابوں کو آنکھوں سے چھین لیتا ہے
اسے نہ شہر تمنا کی حکمرانی دے
سمندروں پہ برس کر نہ ہو فنا بادل
جو لوگ پیاسے ہیں ان کے لبوں کو پانی دے
ہے تنگ میری نظر میں یہ کائنات تیری
مرے خدا مجھے ادراک لا مکانی دے
میں خالی ہاتھ ملوں تجھ سے کس طرح یا رب
کتاب سینے پہ میرے بھی آسمانی دے

غزل
رکے ہوئے ہیں جو دریا انہیں روانی دے
رشیدالظفر