روز اٹھتا ہے دھواں کوہ ندا کے اس پار
چاند چپ چاپ سلگتا ہے فضا کے اس پار
بھیگ جاتی ہے یہ معصوم سی دھرتی ہر صبح
کون روتا ہے بتاؤ تو گھٹا کے اس پار
سرحد جسم سے آگے حد امکاں سے پرے
شہر جاں رہتا ہے دیوار انا کے اس پار
نیکیاں بانٹتے رہنے کی سزا لازم ہے
پارہ پارہ ہے بدن کوئے جزا کے اس پار
میں کہ منجدھار میں ہوں کون نکالے شبنمؔ
چھپ گیا وہ تو کہیں مجھ کو بلا کے اس پار

غزل
روز اٹھتا ہے دھواں کوہ ندا کے اس پار
رفیعہ شبنم عابدی