EN हिंदी
روز فلک سے نم برسیں گے | شیح شیری
roz falak se nam barsenge

غزل

روز فلک سے نم برسیں گے

کنول ضیائی

;

روز فلک سے نم برسیں گے
پیار کے بادل کم برسیں گے

موت نے آنچل جب لہرایا
آنگن میں ماتم برسیں گے

قطرہ قطرہ خون کا بن کر
اس دھرتی پر ہم برسیں گے

زلف کھلے گی پروائی کی
گلشن پر موسم برسیں گے

اب کے برس برسات میں بھائی
دکھ برسیں گے غم برسیں گے

بن کر رسوائی کے آنسو
تیری آنکھ سے ہم برسیں گے

ہم وہ دیوانے ہیں جن پر
پتھر اب پیہم برسیں گے