روز خزاں چمن میں جو دیکھا ہزار کے
اک مشت پر پڑے تھے تلے شاخسار کے
یاران ہم نشین و رفیقان دوست دار
سب آشنا ہیں زندگئ مستعار کے
جب مند گئی یہ آنکھ تو اے دوست بعد مرگ
پھٹکے ہے پاس کون کسی کے مزار کے
جو نقش پا رہے سو رہے پھر نہ اٹھ سکے
واقفؔ کی طرح ہائے گرے کوئے یار کے
غزل
روز خزاں چمن میں جو دیکھا ہزار کے
شاہ واقف