روز اخبار میں چھپ جانے سے ملتا کیا ہے
اپنی تشہیر کے افسانے میں رکھا کیا ہے
تم نے جس کو غم ایام کہا ہے یارو
وہ مرے درد کا حصہ ہے تمہارا کیا ہے
جھن جھنے دے کے مرے ہاتھ میں کوئی مجھ کو
قید ہستی کی سزا دے یہ تماشا کیا ہے
کل تلک جو مری تعریف کیا کرتا تھا
آج وہ بھی مرا دشمن ہے یہ قصہ کیا ہے
ہم اگر ڈوب بھی جائیں تو ابھر سکتے ہیں
ہم کو معلوم ہے جینے کا سلیقہ کیا ہے
ہم نے سوغات سمجھ کر تو اسے اپنایا
اب یہ کیوں سوچیں کہ اس غم کا مداوا کیا ہے
یوں تو سب لوگ تمہیں جانتے ہوں گے انجمؔ
اور کوئی بھی نہ جانے تو بگڑتا کیا ہے
غزل
روز اخبار میں چھپ جانے سے ملتا کیا ہے
انجم عباسی