EN हिंदी
روتا ہمیں جو دیکھا دل اس کا پگھل گیا | شیح شیری
rota hamein jo dekha dil us ka pighal gaya

غزل

روتا ہمیں جو دیکھا دل اس کا پگھل گیا

رنجور عظیم آبادی

;

روتا ہمیں جو دیکھا دل اس کا پگھل گیا
جادوئے چشم اس بت پر فن پہ چل گیا

آتے ہی الٹے پاؤں جو پیک اجل گیا
بے یار مجھ کو دیکھ کے کیا وہ بھی ٹل گیا

یہ کس کا دھیان آ کے مرا دل مسل گیا
بے ساختہ جو نالہ دہن سے نکل گیا

شادئ وصل سے غم ہجراں بدل گیا
فصل بہار آئی خزاں کا عمل گیا

آیا بھی گر کبھی دل آوارہ راہ پر
دیکھا جب اس کو دیکھتے ہی پھر مچل گیا

کیوں سر بہ خاک ہے یہ مرا نونہال دل
کون آ کے پائے ناز سے اس کو کچل گیا

راتیں رہیں وہ راتیں نہ دن ہی رہے وہ دن
تم کیا بدل گئے کہ زمانہ بدل گیا

اب اس سے کیا امید کہ یہ لائے گا ثمر
نخل مراد آتش ہجراں سے جل گیا

کہنا وہ ان کا ہائے شب وصل ناز سے
ارمان اب تو آپ کے دل کا نکل گیا

منہ سے تو بولنے میں نکلتے نہ تھے شرر
کیوں دل مرا رقیب کی باتوں سے جل گیا

رندوں نے مے کدے میں اچھل کود کی تو کیا
عمامہ بھی تو شیخ کے سر سے اچھل گیا

یاد آ گیا وہ بت مجھے حوروں کے ذکر سے
واعظ کے وعظ سے بھی مرا کام چل گیا

دیکھے جو چکنے اس بت توبہ شکن کے گال
پائے ثبات شیخ بھی آخر پھسل گیا

ہے نزع میں بھی گیسوئے پر خم کی دل میں یاد
گو رسی جل گئی مگر اس کا نہ بل گیا

بولے فضول مجھ سے ہے امید داد کی
رنجورؔ جب میں ان کو سنانے غزل گیا