روز جب رات کو بارہ کا گجر ہوتا ہے
یاتناؤں کے اندھیرے میں سفر ہوتا ہے
کوئی رہنے کی جگہ ہے مرے سپنوں کے لئے
وہ گھروندا ہی سہی مٹی کا بھی گھر ہوتا ہے
سر سے سینے میں کبھی پیٹ سے پاؤں میں کبھی
اک جگہ ہو تو کہیں درد ادھر ہوتا ہے
ایسا لگتا ہے کہ اڑ کر بھی کہاں پہنچیں گے
ہاتھ میں جب کوئی ٹوٹا ہوا پر ہوتا ہے
سیر کے واسطے سڑکوں پہ نکل آتے تھے
اب تو آکاش سے پتھراؤ کا ڈر ہوتا ہے
غزل
روز جب رات کو بارہ کا گجر ہوتا ہے
دشینتؔ کمار