رونے سے جو بھڑاس تھی دل کی نکل گئی
آنسو بہائے چار طبیعت سنبھل گئی
میں نے ترس ترس کے گزاری ہے ساری عمر
میری نہ ہوگی جان جو حسرت نکل گئی
بے چین ہوں میں جب سے نہیں دل لگی کہیں
وہ درد کیا گیا کہ مرے دل کی کل گئی
کہتا ہے چارہ گر کہ نہ پائے گا اندمال
اچھا ہوا کہ زخم کی صورت بدل گئی
اے شمع ہم سے سوز محبت کے ضبط سیکھ
کم بخت ایک رات میں ساری پگھل گئی
شاخ نہال عمر ہماری نہ پھل سکی
یہ تو ہے وہ کلی جو نکلتے ہی جل گئی
دیکھا جو اس نے پیار سے اغیار کی طرف
شاعرؔ قسم خدا کی مری جان جل گئی
غزل
رونے سے جو بھڑاس تھی دل کی نکل گئی
آغا شاعر قزلباش