بہت ہی پردے میں اظہار آرزو کرتے
نگاہیں کہتی ہیں ہم ان سے گفتگو کرتے
شراب ناب سے ساقی جو ہم وضو کرتے
حرم کے لوگ طواف خم و سبو کرتے
وہ مل کے دست حنائی سے دل لہو کرتے
ہم آرزو تو حسیں خون آرزو کرتے
دروغ بافی دشمن کا حال کیا کھلتا
جو پردہ چاک بھی ہوتا تو وہ رفو کرتے
اتار لاتے انہیں بام طور سے دل میں
ہم اختیار وہ انداز گفتگو کرتے
ڈرے وہ کیوں مرے پھولوں میں آتی مل کے حنا
یہ پھول خاک تمنائے رنگ و بو کرتے
کلیم کو نہ غش آتا نہ طور ہی جلتا
دبی زبان سے اظہار آرزو کرتے
جو ظرف آب ہمیں میکدے میں مل جاتا
نماز کعبے میں پڑھتے یہاں وضو کرتے
مہ صیام میں موقع جو شب کو مل جاتا
تو ایک سانس میں خالی خم و سبو کرتے
شراب پیتے ہی سجدے میں ان کو گرنا تھا
یہ شغل بیٹھ کے مے نوش قبلہ رو کرتے
ہر ایک قطرے سے بہتی ریاض جوئے شراب
جو پی کے ہم سر زمزم کبھی وضو کرتے

غزل
بہت ہی پردے میں اظہار آرزو کرتے
ریاضؔ خیرآبادی