EN हिंदी
ریاضتوں کی تپش میں رہ کر پگھل رہا ہوں | شیح شیری
riyazaton ki tapish mein rah kar pighal raha hun

غزل

ریاضتوں کی تپش میں رہ کر پگھل رہا ہوں

ندیم سرسوی

;

ریاضتوں کی تپش میں رہ کر پگھل رہا ہوں
یہ بات سچ ہے میں دھیرے دھیرے بدل رہا ہوں

علامت خاک زادگی ہو مزید روشن
بس اس لئے خاک اپنے چہرے پہ مل رہا ہوں

اتار کر قرض زندگانی کا رفتہ رفتہ
نفس کے وحشت کدے سے باہر نکل رہا ہوں

انا پرستوں کے بیچ اپنی انا کے سر کو
ہوں منکسر اس لئے مسلسل کچل رہا ہوں

دعائیں ماں کی قدم قدم سائباں بنی ہیں
ندیمؔ گر گر کے اس لئے میں سنبھل رہا ہوں