ریاضتوں کی تپش میں رہ کر پگھل رہا ہوں
یہ بات سچ ہے میں دھیرے دھیرے بدل رہا ہوں
علامت خاک زادگی ہو مزید روشن
بس اس لئے خاک اپنے چہرے پہ مل رہا ہوں
اتار کر قرض زندگانی کا رفتہ رفتہ
نفس کے وحشت کدے سے باہر نکل رہا ہوں
انا پرستوں کے بیچ اپنی انا کے سر کو
ہوں منکسر اس لئے مسلسل کچل رہا ہوں
دعائیں ماں کی قدم قدم سائباں بنی ہیں
ندیمؔ گر گر کے اس لئے میں سنبھل رہا ہوں
غزل
ریاضتوں کی تپش میں رہ کر پگھل رہا ہوں
ندیم سرسوی