روایتوں کو کبھی تم اساس مت کرنا
میں لوٹ آؤں گا ہرگز یہ آس مت کرنا
گرفت خواب سے جس نے رہائی دی تم کو
وہ خود بھی جاگتا ہوگا قیاس مت کرنا
بکھر رہے ہو تو پھر ٹوٹتا بھی اندر سے
شکستگی کو تم اپنا لباس مت کرنا
کیا ہو جاں سے گزرنے کا فیصلہ جس میں
اس ایک لمحے کو صرف ہراس مت کرنا
اگرچہ ہاتھ میں ہو کاسۂ گدائی بھی
خدا کے بعد کسی کی سپاس مت کرنا
خزاں کے وار سے گھبرا کے اے جمیلؔ کبھی
شگفت گل کے لیے التماس مت کرنا

غزل
روایتوں کو کبھی تم اساس مت کرنا
جمیل قریشی