EN हिंदी
رشتوں کے جب تار الجھنے لگتے ہیں | شیح شیری
rishton ke jab tar ulajhne lagte hain

غزل

رشتوں کے جب تار الجھنے لگتے ہیں

بھارت بھوشن پنت

;

رشتوں کے جب تار الجھنے لگتے ہیں
آپس میں گھر بار الجھنے لگتے ہیں

ماضی کی آنکھوں میں جھانک کے دیکھوں تو
کچھ چہرے ہر بار الجھنے لگتے ہیں

سال میں اک ایسا موسم بھی آتا ہے
پھولوں سے ہی خار الجھنے لگتے ہیں

گھر کی تنہائی میں اپنے آپ سے ہم
بن کر اک دیوار الجھنے لگتے ہیں

یہ سب تو دنیا میں ہوتا رہتا ہے
ہم خود سے بیکار الجھنے لگتے ہیں

کب تک اپنا حال بتائیں لوگوں کو
تنگ آ کر بیمار الجھنے لگتے ہیں

جب دریا کا کوئی چھور نہیں ملتا
کشتی سے پتوار الجھنے لگتے ہیں

کچھ خبروں سے اتنی وحشت ہوتی ہے
ہاتھوں سے اخبار الجھنے لگتے ہیں

کوئی کہانی جب بوجھل ہو جاتی ہے
ناٹک کے کردار الجھنے لگتے ہیں