EN हिंदी
رفاقتوں کا طلب گار بھی نہ ہوتا تھا | شیح شیری
rifaqaton ka talabgar bhi na hota tha

غزل

رفاقتوں کا طلب گار بھی نہ ہوتا تھا

نور محمد یاس

;

رفاقتوں کا طلب گار بھی نہ ہوتا تھا
مگر کسی سے وہ بے زار بھی نہ ہوتا تھا

کل اس کے خواب تھے جو آج اپنی دنیا ہے
فسانہ ساز فسوں کار بھی نہ ہوتا تھا

سبک روی کی وہیں شرط بھی ٹھہرتی تھی
جہاں سے راستہ ہموار بھی نہ ہوتا تھا

مرے سرہانے اٹھاتی تھیں حشر تعبیریں
ابھی میں خواب سے بیدار بھی نہ ہوتا تھا

ہواؤں سے تھا گریزاں وہ خود گرفتہ پرند
کسی کے ہاتھوں گرفتار بھی نہ ہوتا تھا

نہاں ہوں آنکھ سے بارش میں دوڑتے شعلے
سماں کچھ اتنا دھواں دھار بھی نہ ہوتا تھا

گزر دلوں سے ہو سب اس ہوا میں تھے لیکن
کوئی کسی کا طرف دار بھی نہ ہوتا تھا

مرا سکوت نہ ہو قفل باب معنی یاسؔ
بیاں حروف کی دیوار بھی نہ ہوتا تھا