ردائے سنگ اوڑھ کر نہ سو گیا ہو کانچ بھی
حریم زخم لازمی ہے خیر و شر کی جانچ بھی
گئے برس کی راکھ جس کو دان کی تھی آ گیا
اسی ندی سے غسل کر کے دو ہزار پانچ بھی
محاورے کی رو سے جانچئے تو وہ سراب ہے
میں سانچ بھی نہیں نہیں ہے اس بدن کی آنچ بھی
بھرم ذرا سا مستیوں کا رکھ کہ ہم ہیں گھات میں
غزال مست چشم ہو ادھر کو اک قلانچ بھی

غزل
ردائے سنگ اوڑھ کر نہ سو گیا ہو کانچ بھی
تنویر مونس