EN हिंदी
ردائے سنگ اوڑھ کر نہ سو گیا ہو کانچ بھی | شیح شیری
rida-e-sang oDh kar na so gaya ho kanch bhi

غزل

ردائے سنگ اوڑھ کر نہ سو گیا ہو کانچ بھی

تنویر مونس

;

ردائے سنگ اوڑھ کر نہ سو گیا ہو کانچ بھی
حریم زخم لازمی ہے خیر و شر کی جانچ بھی

گئے برس کی راکھ جس کو دان کی تھی آ گیا
اسی ندی سے غسل کر کے دو ہزار پانچ بھی

محاورے کی رو سے جانچئے تو وہ سراب ہے
میں سانچ بھی نہیں نہیں ہے اس بدن کی آنچ بھی

بھرم ذرا سا مستیوں کا رکھ کہ ہم ہیں گھات میں
غزال مست چشم ہو ادھر کو اک قلانچ بھی