ردائے آہنی ہر آدمی کے سر پر ہے
کہ جیسے سنگ کی بارش اسی نگر پر ہے
نہ کھو جو مٹھی میں انگلی کسی کی ہم سفرو
ہمارا قافلہ انجانی رہ گزر پر ہے
بچا رہا تھا جو کل رات کالی آندھی سے
وہ پھل چڑھا ہوا ہر شخص کی نظر پر ہے
وہ کون روئی تھی کاجل لگا کے آنکھوں میں
یہ دھبہ دھبہ سیاہی رخ سحر پر ہے
شکستہ حالی پہ ہر اینٹ جن کی ہنستی ہے
انہیں غرور اسی ٹوٹے پھوٹے گھر پر ہے
کب احترام کی خاطر جھکی مری گردن
کہ اک لٹکتی سی تلوار میرے سر پر ہے
صدا لگا کے کبھی کا چلا گیا کوئی
یہ بازگشت صدا کیوں تمہارے در پر ہے
ذرا پتہ تو لگائیں لہو ہے کیوں تازہ
جو اک زمانے سے محلوں کے اس کھنڈر پر ہے
چھپائے رکھنا تھا ایسے خوشی کے موقع پر
وہ ایک داغ جو پیشانیٔ ظفر پر ہے
بڑا ہی خوف لگا رہتا ہے پھسلنے کا
سفر ہمارا ابھی گیلی رہ گزر پر ہے
میں جھوٹ کیسے کہوں سچ تو کہہ نہیں سکتا
کچھ حاشیہ بھی لگا رات کی خبر پر ہے
غزل
ردائے آہنی ہر آدمی کے سر پر ہے
شمیم انور