EN हिंदी
ریت پہ ساحل کی اپنے نقش پا چھوڑ آئے ہیں | شیح شیری
ret pe sahil ki apne naqsh-e-pa chhoD aae hain

غزل

ریت پہ ساحل کی اپنے نقش پا چھوڑ آئے ہیں

نیاز جیراجپوری

;

ریت پہ ساحل کی اپنے نقش پا چھوڑ آئے ہیں
اے ہوا تیرے لیے اپنا پتا چھوڑ آئے ہیں

لوٹ کر دیکھیں گے اس کے آگے اس نے کیا لکھا
ڈائری میں اس کی اک پنا مڑا چھوڑ آئے ہیں

یوں اثر انداز اکیلے پن کا دکھ ہم پہ ہوا
طوطے کے پنجرے کو آنگن میں کھلا چھوڑ آئے ہیں

شہر میں آ کر بھٹکتے پھر رہے ہیں در بدر
سیدھا سا ہر رستہ اپنے گاؤں کا چھوڑ آئے ہیں

گزرے کیوں مایوس ہو کر صورت سائل ہوا
اک دیا دہلیز پر جلتا ہوا چھوڑ آئے ہیں

جالے بن کر مکڑیاں محفوظ رکھیں گی اسے
وقت رخصت گھر میں نام اللہ کا چھوڑ آئے ہیں

اس کے خالی پن کو بھی بھرنے کی سوچیں اے نیازؔ
ویسے تو راشن کا ہر ڈبہ بھرا چھوڑ آئے ہیں