ریت کے اک شہر میں آباد ہیں در در کے لوگ
بے زمیں بے آسماں بے پاؤں کے بے سر کے لوگ
میرا گھائل جسم ہے میری رہائش کا پتہ
میں جہاں رہتا ہوں رہتے ہیں وہاں پتھر کے لوگ
ایک اک لمحہ ہے قطرہ زندگی کے خون کا
عافیت کا سانس بھی لیتے ہیں تو ڈر ڈر کے لوگ
اور دیواروں سے دیواریں نکلتی ہیں ابھی
ساتھ رہ کر بھی الگ رہتے ہیں سارے گھر کے لوگ
چاند مٹی کا دیا ہے یہ کسے معلوم تھا
آسماں در آسماں اڑتے رہے بے پر کے لوگ
جھانک کر دیکھا ہے ہم نے وقت کے حمام میں
اپنے ہی جیسے نظر آئے ہیں دنیا بھر کے لوگ
غزل
ریت کے اک شہر میں آباد ہیں در در کے لوگ
یٰسین افضال