ریت بھری ہے ان آنکھوں میں آنسو سے تم دھو لینا
کوئی سوکھا پیڑ ملے تو اس سے لپٹ کے رو لینا
اس کے بعد بہت تنہا ہو جیسے جنگل کا رستہ
جو بھی تم سے پیار سے بولے ساتھ اسی کے ہو لینا
کچھ تو ریت کی پیاس بجھاؤ جنم جنم کی پیاسی ہے
ساحل پر چلنے سے پہلے اپنے پاؤں بھگو لینا
میں نے دریا سے سیکھی ہے پانی کی یہ پردہ داری
اوپر اوپر ہنستے رہنا گہرائی میں رو لینا
روتے کیوں ہو دل والوں کی قسمت ایسی ہوتی ہے
ساری رات یوں ہی جاگو گے دن نکلے تو سو لینا
غزل
ریت بھری ہے ان آنکھوں میں آنسو سے تم دھو لینا
بشیر بدر