ریت آنکھوں میں بھر گیا دریا
کیسے آیا کدھر گیا دریا
راستہ مل سکا نہ آنکھوں سے
میرے اندر ہی مر گیا دریا
میں تو پیاسا تھا خشک صحرا سا
مجھ میں کیسے اتر گیا دریا
اس کی آنکھوں کی دیکھ گہرائی
خامشی سے گزر گیا دریا
بات کتنی تھی مختصر اس کی
وہ تو کوزے میں بھر گیا دریا
پھر مقدر وہاں تھی بربادی
جس طرف سے گزر گیا دریا
دیکھنے کی تھیں اس کی موجیں پھر
بات سے جب مکر گیا دریا
دیکھ کر اس قدر تلاطم کو
میری آنکھوں سے ڈر گیا دریا
غزل
ریت آنکھوں میں بھر گیا دریا
آصف انجم