ریگ رواں پہ نقش کف پا نہ دیکھنا
آئینۂ ضمیر میں چہرا نہ دیکھنا
بے صرفہ ہے لہو کی تمازت مرے لیے
اسرار جسم و جاں کو برہنہ نہ دیکھنا
جو آنسوؤں کے لعل و جواہر بکھیر دے
اس ایک موج درد کو اٹھتا نہ دیکھنا
راتوں کا چین دن کا سکوں ہو اگر عزیز
چلتا ہے ساتھ ساتھ جو سایہ نہ دیکھنا
ہے شب کی آستیں میں گناہوں کی روشنی
زخم نظر سے صورت زیبا نہ دیکھنا
ہم بھی فصیل شہر کے سائے میں آ رکے
وا ہو در مراد تو صحرا نہ دیکھنا
یہ احتیاط وضع جنوں ہی نہیں مگر
راہ وفا میں اپنے کو بیگانہ دیکھنا
ہر شاخ پر جلے ہوئے لمحوں کی راکھ ہے
فصل بہار زخم تمنا نہ دیکھنا
غزل
ریگ رواں پہ نقش کف پا نہ دیکھنا
شفقت تنویر مرزا