روانی غم کی جس میں تھی وہ جوہر دے دیا میں نے
غزل پیاسی تھی جذبوں کا سمندر دے دیا میں نے
جس آبادی میں بے سورج اندھیرا ہی اندھیرا تھا
اسے بھی چاندنی راتوں کا منظر دے دیا میں نے
جو مدت سے گرے تھے بے پر و بالی کی کھائی میں
اڑانوں کے لیے ان کو بھی شہ پر دے دیا میں نے
جو پلکوں پر سجا کر آس کے کچھ خواب بیٹھے تھے
انہیں ان کی تمناؤں کا مظہر دے دیا میں نے
کہو دلدارؔ مجھ سے اور کیا اب چاہیئے تم کو
تمہارے شہر کو تہذیب کا گھر دے دیا میں نے
غزل
روانی غم کی جس میں تھی وہ جوہر دے دیا میں نے
دلدار ہاشمی