رواں رہتا ہے کس کی موج میں دن رات تو پانی
تجھے کس گوہر نایاب کی ہے جستجو پانی
وہی میرے لیے ساقی مئے گلفام بن جائے
جو اپنے دست نازک سے پلا دے مجھ کو تو پانی
اگر دریا میں تم دست حنائی اپنے دھو لیتے
تو اب تک ہو گیا ہوتا کبھی کا سرخ رو پانی
کیا کرتے تھے بڑھ بڑھ کر بہت باتیں صفائی کی
مرے اشکوں نے کر دی موتیوں کی آبرو پانی
بہت آسان ہے مضطر ذلیل و خوار ہو جانا
جو مشکل ہے تو چشم خلق میں کچھ آبرو پانی
غزل
رواں رہتا ہے کس کی موج میں دن رات تو پانی
مضطر خیرآبادی