EN हिंदी
رواں رہتا ہے کس کی موج میں دن رات تو پانی | شیح شیری
rawan rahta hai kis ki mauj mein din raat tu pani

غزل

رواں رہتا ہے کس کی موج میں دن رات تو پانی

مضطر خیرآبادی

;

رواں رہتا ہے کس کی موج میں دن رات تو پانی
تجھے کس گوہر نایاب کی ہے جستجو پانی

وہی میرے لیے ساقی مئے گلفام بن جائے
جو اپنے دست نازک سے پلا دے مجھ کو تو پانی

اگر دریا میں تم دست حنائی اپنے دھو لیتے
تو اب تک ہو گیا ہوتا کبھی کا سرخ رو پانی

کیا کرتے تھے بڑھ بڑھ کر بہت باتیں صفائی کی
مرے اشکوں نے کر دی موتیوں کی آبرو پانی

بہت آسان ہے مضطر ذلیل و خوار ہو جانا
جو مشکل ہے تو چشم خلق میں کچھ آبرو پانی