رواں ہے قافلۂ جستجو کدھر میرا
کوئی سمجھ نہ سکا مقصد سفر میرا
سکون روح ملا حلقۂ رسن میں مجھے
وگرنہ بار گراں تھا بدن پہ سر میرا
میں اپنے ہاتھ کے چھالے دکھاتا پھرتا ہوں
دلائے کوئی مجھے حصۂ ثمر میرا
ہر اک شجر ہے مرا یوں تو سارے جنگل میں
عجب ستم ہے نہیں سایۂ شجر میرا
کہو یہ ابر سے کیا فائدہ برسنے کا
کہ اب تو جل بھی چکا ہے تمام گھر میرا
اسی لیے مری منزل نہ مل سکی مجھ کو
کہ میرے ساتھ اک رہزن تھا ہم سفر میرا
غزل
رواں ہے قافلۂ جستجو کدھر میرا
اسد جعفری