رعونتوں میں نہ اتنی بھی انتہا ہو جائے
کہ آدمی نہ رہے آدمی خدا ہو جائے
اسی کے پاس ہو سب اختیار بولنے کا
اور اس کے سامنے ہر شخص بے صدا ہو جائے
گھرے ہوئے ہیں عجب عہد بے یقینی میں
خبر نہیں کہ کہاں کس کے ساتھ کیا ہو جائے
کہاں کہاں سے اٹھائے سروں کی فصل کوئی
تمام شہر ہی جب دشت کربلا ہو جائے
اب اس سے بڑھ کے ترے ساتھ کیا محبت ہو
میں تجھ کو یاد کروں اور سامنا ہو جائے
تعلقات میں گنجائشیں تو ہوتی ہیں
ذرا سی بات پہ کیا آدمی خفا ہو جائے
ہم اہل حرف بڑے صاحب کرامت ہیں
ہمارے ہاتھ میں پتھر بھی آئنا ہو جائے
ہم اک اشارے سے رخ موڑ دیں ہواؤں کا
نظر کریں تو سمندر میں راستا ہو جائے
کبھی تو منزل صبح یقیں ملے عارفؔ
کہیں تو ختم گمانوں کا سلسلہ ہو جائے

غزل
رعونتوں میں نہ اتنی بھی انتہا ہو جائے
سید عارف