EN हिंदी
روشنی سی دل کے زخموں میں اتر آنے کو ہے | شیح شیری
raushni si dil ke zaKHmon mein utar aane ko hai

غزل

روشنی سی دل کے زخموں میں اتر آنے کو ہے

نصرت مہدی

;

روشنی سی دل کے زخموں میں اتر آنے کو ہے
اے شب غم پھر ترا چہرا نظر آنے کو ہے

آسماں پر شام کا تارا نظر آنے کو ہے
خواہشوں کا چڑھتا سورج جب اتر آنے کو ہے

کیا مسافت ہے کہ صحرا ختم ہوتا ہی نہیں
تم تو کہتے تھے کہ اس رستے میں گھر آنے کو ہے

پھر ہمارے ذہن و دل پر بزدلی طاری ہوئی
دیکھ لینا پھر کوئی پتھر ادھر آنے کو ہے

جھڑکیاں بیٹے کی سن کر اشک ماں نے پی لیے
درد لیکن بوڑھے چہرے پر ابھر آنے کو ہے

لفظ کی تہذیب کا بھی پاس لازم ہے جناب
گفتگو معیار سے نیچے اتر آنے کو ہے

کاٹ کر پیڑوں کو انساں جل رہا ہے دھوپ میں
اور یہ الزام بھی موسم کے سر آنے کو ہے

دیکھیے کیا ٹی وی چینل پڑھیے کیا اخبار میں
ان دنوں بھی کیا کوئی اچھی خبر آنے کو ہے