روشنی سے تیرگی تعبیر کر دی جائے گی
رنگ سے محروم ہر تصویر کر دی جائے گی
عدل کے معیار میں آ جائیں گی تبدیلیاں
بے گناہی لائق تعزیر کر دی جائے گی
ہر نظر کو آرزوؤں کا سمندر بخش کر
ہر زباں پر تشنگی تحریر کر دی جائے گی
دب کے رہ جائیں گے جذبوں کے اجالے ایک دن
ظلمت افلاس عالمگیر کر دی جائے گی
ہر کلائی ہر تمنا ہر حقیقت ہر وفا
آشنائے حلقۂ زنجیر کر دی جائے گی
بانجھ ہو کر رہ گیا جس وقت دھرتی کا بدن
تب ہمارے نام یہ جاگیر کر دی جائے گی
دفن کر کے اس کی بنیادوں میں انسانوں کے سر
اک مہذب شہر کی تعمیر کر دی جائے گی

غزل
روشنی سے تیرگی تعبیر کر دی جائے گی
سرور ارمان