روشنی سے کس طرح پردا کریں گے
آخر شب سوچتے ہیں کیا کریں گے
وہ سنہری دھوپ اب چھت پر نہیں ہے
ہم بھی آئینے کو اب اندھا کریں گے
جسم کے اندر جو سورج تپ رہا ہے
خون بن جائے تو پھر ٹھنڈا کریں گے
گھر سے وہ نکلے تو بس اسٹینڈ تک ہی
اس کا سایہ بن کے ہم پیچھا کریں گے
آنکھ پتھرا جائے گی یہ جانتے ہیں
پھر بھی اس منظر میں ہم کھویا کریں گے
غزل
روشنی سے کس طرح پردا کریں گے
فرخ جعفری