روشنی کو تیرگی کا قہر بن کر لے گیا
آنکھ میں محفوظ تھے جتنے بھی منظر لے گیا
اجنبی سا لگ رہا ہوں آج اپنے آپ کو
آئنے کے سامنے میں کس کا پیکر لے گیا
کیوں نظر آتی نہیں اب کاٹی سطح آب پر
کھینچ کر ندی کے سر سے کون چادر لے گیا
پھر ہوئی آمادۂ پیکار پیڑوں سے ہوا
پھر کوئی جھونکا کئی پتے اڑا کر لے گیا
روکتے ہی رہ گئے دیوار و در آصفؔ مجھے
میں مگر چپ چاپ خود کو گھر سے باہر لے گیا
غزل
روشنی کو تیرگی کا قہر بن کر لے گیا
اعجاز آصف