EN हिंदी
روشنی کو تیرگی کا قہر بن کر لے گیا | شیح شیری
raushni ko tirgi ka qahr ban kar le gaya

غزل

روشنی کو تیرگی کا قہر بن کر لے گیا

اعجاز آصف

;

روشنی کو تیرگی کا قہر بن کر لے گیا
آنکھ میں محفوظ تھے جتنے بھی منظر لے گیا

اجنبی سا لگ رہا ہوں آج اپنے آپ کو
آئنے کے سامنے میں کس کا پیکر لے گیا

کیوں نظر آتی نہیں اب کاٹی سطح آب پر
کھینچ کر ندی کے سر سے کون چادر لے گیا

پھر ہوئی آمادۂ پیکار پیڑوں سے ہوا
پھر کوئی جھونکا کئی پتے اڑا کر لے گیا

روکتے ہی رہ گئے دیوار و در آصفؔ مجھے
میں مگر چپ چاپ خود کو گھر سے باہر لے گیا