روشنی کرنے آیا تھا سورج
سائے دیکھے تو ڈھل گیا سورج
پردا جب بھی ہٹایا کھڑکی سے
میرے کمرے میں آ گیا سورج
آ گئے ہم چھتوں سے کمروں میں
اور ہمیں ڈھونڈھتا پھرا سورج
چاندنی بھی اداس لگتی ہے
مجھ کو ویران کر گیا سورج
رات نے بادبان کھول دیا
اپنا سامان لے گیا سورج
سارا دن کان بجتے رہتے ہیں
ہر کرن ہے تری صدا سورج
ایک میں ہی نہیں ہوں دنیا میں
تیرا سب سے ہے رابطہ سورج
کوئی دیوار بھی نہیں حائل
تیرا دربار ہے کھلا سورج
سانس تیری ہے سب کے سینوں میں
سب تجھی سے ہے سلسلہ سورج
میرا تیرا مقابلہ کیسا
میں تو ہوں گھر کا اک دیا سورج
آج کا دن خلیلؔ کیا گزرا
آج دل سے اتر گیا سورج
غزل
روشنی کرنے آیا تھا سورج
خلیل رامپوری