روشنی کا ساتھ مہنگا پڑ گیا ہے
جانے کس وحشت میں سایہ پڑ گیا ہے
آپ کی جادوگری کے واسطے ہی
خود کو حیرت میں دکھانا پڑ گیا ہے
پھر مجھے درپیش ہیں خوشیاں تمہاری
پھر سے غم اپنا چھپانا پڑ گیا ہے
ہم کہاں ان کو بٹھائیں سوچ میں ہیں
گھر ہمارا کتنا چھوٹا پڑ گیا ہے
دشت کی عظمت بھی اب خطرے میں آئی
میرے پیچھے گھر کا رستہ پڑ گیا ہے
کھینچ لاتا ہے مجھے در تک تمہارے
میرے پیچھے کوئی بچہ پڑ گیا ہے
میں لگا ہوں ڈھونڈھنے میں روح کو اور
جسم بیچارہ اکیلا پڑ گیا ہے
غزل
روشنی کا ساتھ مہنگا پڑ گیا ہے
نشانت شری واستو نایاب