روشنی ہی روشنی ہے شہر میں
پھر بھی گویا تیرگی ہے شہر میں
روز و شب کے شور و غل کے باوجود
اک طرح کی خامشی ہے شہر میں
ریل کی پٹری پہ سو جاتے ہیں لوگ
کتنی آساں خود کشی ہے شہر میں
جو عمارت ہے وہ سر سے پاؤں تک
اشتہاروں سے سجی ہے شہر میں
گاؤں چھوڑے ہو چکی مدت مگر
خاورؔ اب تک اجنبی ہے شہر میں
غزل
روشنی ہی روشنی ہے شہر میں
بدیع الزماں خاور