EN हिंदी
روشنی بن کے اندھیرے پہ اثر ہم نے کیا | شیح شیری
raushni ban ke andhere pe asar humne kiya

غزل

روشنی بن کے اندھیرے پہ اثر ہم نے کیا

راشد طراز

;

روشنی بن کے اندھیرے پہ اثر ہم نے کیا
دشت تنہائی سے کیا خوب گزر ہم نے کیا

بندش ہجر کو توڑا نہیں تو نے آ کر
یاد کیا تجھ کو نہیں شام و سحر ہم نے کیا

اک بیاباں بھی ملا منتظر نور ازل
دل کی ویرانی کو جب پیش نظر ہم نے کیا

اور کچھ ہو نہ سکا صورت درماں لیکن
اپنا دامن تو سر دیدۂ تر ہم نے کیا

درد کے مارے ہوئے لوگ تھے خوابوں کے قریب
کیسے نادیدہ زمانوں کا سفر ہم نے کیا

ہم نے دیکھا ہے وہاں پھر بھی اجالا راشدؔ
ساتھ رہتے ہوئے سب کے جہاں گھر ہم نے کیا