روشنی بن کے اندھیرے پہ اثر ہم نے کیا
دشت تنہائی سے کیا خوب گزر ہم نے کیا
بندش ہجر کو توڑا نہیں تو نے آ کر
یاد کیا تجھ کو نہیں شام و سحر ہم نے کیا
اک بیاباں بھی ملا منتظر نور ازل
دل کی ویرانی کو جب پیش نظر ہم نے کیا
اور کچھ ہو نہ سکا صورت درماں لیکن
اپنا دامن تو سر دیدۂ تر ہم نے کیا
درد کے مارے ہوئے لوگ تھے خوابوں کے قریب
کیسے نادیدہ زمانوں کا سفر ہم نے کیا
ہم نے دیکھا ہے وہاں پھر بھی اجالا راشدؔ
ساتھ رہتے ہوئے سب کے جہاں گھر ہم نے کیا
غزل
روشنی بن کے اندھیرے پہ اثر ہم نے کیا
راشد طراز