EN हिंदी
رونق فروغ‌ درد سے کچھ انجمن میں ہے | شیح شیری
raunaq farogh-e-dard se kuchh anjuman mein hai

غزل

رونق فروغ‌ درد سے کچھ انجمن میں ہے

بیباک بھوجپوری

;

رونق فروغ‌ درد سے کچھ انجمن میں ہے
خون جگر غریب کا ہر بانکپن میں ہے

دیوانہ زندگانی کا دیتا ہے یوں ثبوت
باہر لحد سے ہے کبھی خونیں کفن میں ہے

دل کے لہو سے روح کی ہوتی ہے پرورش
معراج آگہی کی وفور محن میں ہے

ہر بوند نوک کلک کی دیتی ہے درس ہوش
کونین کا سراغ بھی بطن سخن میں ہے

دو یک نفس ہے خیمۂ گل کا فریب رنگ
عبرت فروش خار بھی صحن چمن میں ہے

آفاق ساز مذہب ایثار پھر سے ڈھونڈ
اک لعل‌ شب چراغ بھی طاق کہن میں ہے

یارو سخن برائے سخن مطلقاً عبث
پیغام‌ ہست و بود کہیں فکر و فن میں ہے

اخلاص دل کا رحمت باری سے کر طلب
روشن چراغ عدل کہاں انجمن میں ہے

بوزر کا فقر حضرت فاروقؓ کا مزاج
اصنام ساز قوم کے شیخ زمن میں ہے

سوداگری سے مانا کہ حاصل ہے کچھ وقار
سامان مفسدات بھی تزئین تن میں ہے

عصر رواں کے لوگ ہیں آوارگی پسند
فتنہ بھی حرص و آز کا خضر زمن میں ہے

شبنم سے پنکھڑی بھی سلگتی ہے پھول کی
نیرنگئ خزاں بھی بہار چمن میں ہے

فیضان ارتقا سے جنازہ خلوص کا
خیرالامم کے دوش پہ شہر زمن میں ہے

جمہوریت بھی طرفہ تماشہ کا کس قدر
لوح و قلم کی جان ید اہرمن میں ہے

اس افترا پہ دیجئے کچھ مفتری کو داد
جنت اگر کہیں ہے تو میرے وطن میں ہے

جانے کسے نصیب ہو ببیاکؔ آگہی
ناقد جدید دور کا تخمین و ظن میں ہے