EN हिंदी
رسم و راہ دہر کیا جوش محبت بھی تو ہو | شیح شیری
rasm-o-rah-e-dahr kya josh-e-mohabbat bhi to ho

غزل

رسم و راہ دہر کیا جوش محبت بھی تو ہو

فراق گورکھپوری

;

رسم و راہ دہر کیا جوش محبت بھی تو ہو
ٹوٹ جاتی ہے ہر اک زنجیر وحشت بھی تو ہو

زندگی کیا موت کیا دو کروٹیں ہیں عشق کی
سونے والے چونک اٹھیں گے قیامت بھی تو ہو

''ہرچہ بادا باد'' کے نعروں سے دنیا کانپ اٹھی
عشق کے اتنا کوئی برگشتہ قسمت بھی تو ہو

کارزار دہر میں ہر کیف ہر مستی بجا
کچھ شریک بیخودی رندانۂ جرأت بھی تو ہو

کم نہیں اہل ہوس کی بھی خیال آرائیاں
یہ فنا کی حد سے بھی بڑھ جائیں ہمت بھی تو ہو

کچھ اشارات نہاں ہوں تو نگاہ ناز کے
بھانپ لیں گے ہم یہ محفل رشک خلوت بھی تو ہو

اب تو کچھ اہل رضا بھی ہو چلے مایوس سے
ہر جفائے ناروا کی کچھ نہایت بھی تو ہو

ہر نفس سے آئے بوئے آتش سیال عشق
آگ وہ دل میں لہو میں وہ حرارت بھی تو ہو

یہ ترے جلوے یہ چشم شوق کی حیرانیاں
برق حسن یار نظارے کی فرصت بھی تو ہو

گردش دوراں میں اک دن آ رہے گا ہوش بھی
ختم اے چشم سیہ یہ دور غفلت بھی تو ہو

ہر دل افسردہ سے چنگاریاں اڑ جائیں گی
کچھ تری معصوم آنکھوں میں شرارت بھی تو ہو

اب وہ اتنا بھی نہیں بیگانۂ وجہ ملال
پرسش غم اس کو آتی ہے ضرورت بھی تو ہو

ایک سی ہیں اب تو حسن و عشق کی مجبوریاں
ہم ہوں یا تم ہو وہ عہد با فراغت بھی تو ہو

دیکھ کر رنگ مزاج یار کیا کہیے فراقؔ
اس میں کچھ گنجائش شکر و شکایت بھی تو ہو